تو بھی وفا کے روپ میں اب ڈھل کے دیکھ لے
اس آگ میں ہماری طرح جل کے دیکھ لے
دشت طلب میں پیار کے غنچے بھی کھل اٹھیں
کچھ روز میرے ساتھ کبھی چل کے دیکھ لے
ممکن ہے کوئی صبح تمنا ہو اس کے بعد
اے حسرتوں کی رات ذرا ڈھل کے دیکھ لے
کچھ گرد باد غم کے امیدوں کے کچھ سراب
منظر ہمارے دل میں کوئی تھل کے دیکھ لے
رکھتے ہیں ہم بھی جرأت اظہار زندگی
محرومیوں کا خوف اگر ٹل کے دیکھ لے
اس دل میں ہو چکا ہے بہت ولولوں کا خون
اے جذب شوق تو بھی یہاں پل کے دیکھ لے
اظہرؔ ترا نصیب ہے یہ شبنمی بہار
چہرے پہ تو بھی رنگ خزاں مل کے دیکھ لے
غزل
تو بھی وفا کے روپ میں اب ڈھل کے دیکھ لے
اظہر جاوید