EN हिंदी
تو بھی ہو جائے گا پانی پانی | شیح شیری
tu bhi ho jaega pani pani

غزل

تو بھی ہو جائے گا پانی پانی

مرزا اطہر ضیا

;

تو بھی ہو جائے گا پانی پانی
پیاس ہے میری پرانی پانی

رہ کے صحرا میں ہرا ہو گیا میں
مجھ میں بہنے لگا دھانی پانی

کہتی جاتی ہے کہانی کوئی
تیری ہر آن روانی پانی

تو تو رہتا ہے مری آنکھوں میں
تجھ سے کیا بات چھپانی پانی

پیاس روکے ہوئے میں بیٹھا تھا
اور پھر چیخ اٹھا پانی پانی

میں نے کھینچا تھا ہوا پر کوئی لفظ
لکھتا ہے جس کے معانی پانی

میری آنکھوں سے بھی اک بار نکل
دیکھوں میں تیری روانی پانی

حلق سے زہر اتاروں اطہرؔ
لا مرے دشمن جانی پانی