EN हिंदी
تو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہوگا | شیح شیری
tu ang ang mein KHushbu si ban gaya hoga

غزل

تو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہوگا

غلام جیلانی اصغر

;

تو انگ انگ میں خوشبو سی بن گیا ہوگا
میں سوچتا ہوں کہ تجھ سے گریز کیا ہوگا

تمام رات مرے دل سے آنچ آتی رہی
کہیں قریب کوئی شہر جل رہا ہوگا

تو میرے ساتھ بھی رہ کر مرے قریب نہ تھا
اب اس سے اور فزوں فاصلہ بھی کیا ہوگا

مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں
کبھی تو تو بھی مری طرح سوچتا ہوگا

کبھی تو سنگ ملامت کہیں سے آئے گا
کوئی تو شہر میں اپنا بھی آشنا ہوگا

ذرا سی بات پہ کیا دوستوں کے منہ آئیں
غریب دل تھا مروت میں جل بجھا ہوگا