EN हिंदी
تو اگر با اصول ہو جائے | شیح شیری
tu agar ba-usul ho jae

غزل

تو اگر با اصول ہو جائے

محمد علی ساحل

;

تو اگر با اصول ہو جائے
رحمتوں کا نزول ہو جائے

پیار اتنا کرو کہ پتھر بھی
ایسے پگھلے کہ پھول ہو جائے

ان سے ملنے میں ڈر یہ لگتا ہے
کوئی ہم سے نہ بھول ہو جائے

آئنہ آئنہ ہی رہتا ہے
چاہے جتنی بھی دھول ہو جائے

غم نہ ہو زندگی اگر تجھ میں
تیرا ہونا فضول ہو جائے

دل سے توبہ کرے اگر ساحلؔ
تیری توبہ قبول ہو جائے