تو اگر ابر ہے میں ابر میں پانی کی طرح
میں ترے ساتھ ہوں لفظوں میں معانی کی طرح
نفسی نفسی کا یہ عالم ہے کہ آتے جاتے
تم ملے بھی تو قیامت کی نشانی کی طرح
یوں ہی اک روز گزر جاؤں گا راہوں سے تری
میں بھی بہتی ہوئی ندیوں کی روانی کی طرح
دیکھ کر تجھ کو کلیجے میں کسک اٹھتی ہے
دھج تری ہے مری آشفتہ بیانی کی طرح
نا مرادی میں تو اے دشت اکیلا ہی نہیں
میں بھی پیاسا ہوں تری تشنہ دہانی کی طرح
آج سن لو مری باتیں کہ ابھی زندہ ہوں
کل سنا جاؤں گا محفل میں کہانی کی طرح

غزل
تو اگر ابر ہے میں ابر میں پانی کی طرح
نعمان امام