تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا
ہے شرط اتنی حساب رکھنا
زبان کا کچھ خیال رکھ کر
بیان کو کامیاب رکھنا
قریب آؤ کہ چاہتا ہوں
ہتھیلی پر ماہتاب رکھنا
اگر تمازت کو سہ سکو تم
تو حسرت آفتاب رکھنا
جو کہنی ہو بات خار جیسی
تو لہجہ اپنا گلاب رکھنا
ضیاؔ کسی سے سوال پوچھو
تو ذہن میں تم جواب رکھنا
غزل
تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا
سبھاش پاٹھک ضیا