تمہیں خبر بھی ہے یہ تم نے کس سے کیا مانگا
بھنور میں ڈوبنے والوں سے آسرا مانگا
سنے جو میرے عزائم تو آزمانے کو
ہوا سے برق نے گھر کا مرے پتا مانگا
خود اپنی راہ بناتا گیا پہاڑوں میں
کبھی کہاں کسی دریا نے راستا مانگا
جو آپ اپنے اندھیروں سے بد حواس ہوئی
شب سیاہ نے گھبرا کے اک دیا مانگا
کہیں بھی ہو کوئی نیکی برائے نیکی ہو
وہیں پہ ہو گئی ضائع اگر صلہ مانگا
خدا کی دین کے محتاج بندگان خدا
یہ کیا کہ مانگنے والوں سے جا بجا مانگا
ہمیں جو عشق میں ہونا تھا سرخ رو اعجازؔ
تو ہم نے جان حزیں قلب مبتلا مانگا
غزل
تمہیں خبر بھی ہے یہ تم نے کس سے کیا مانگا
غنی اعجاز