EN हिंदी
تمہیں ہماری محبتوں کے حسین جذبے بلا رہے ہیں | شیح شیری
tumhein hamari mohabbaton ke hasin jazbe bula rahe hain

غزل

تمہیں ہماری محبتوں کے حسین جذبے بلا رہے ہیں

ندیم گلانی

;

تمہیں ہماری محبتوں کے حسین جذبے بلا رہے ہیں
جو ہم نے لکھے تھے تم پہ ہمدم وہ سارے نغمے بلا رہے ہیں

وہاں تمہارے بھی بچپنوں کی حسین یادیں ہیں دفن یارو
خدا گواہ ہے وطن میں تم کو تمہارے قصبے بلا رہے ہیں

جو حق غریبوں کا کھا رہے ہو تو یاد رکھنا اے حکمرانو
کہیں پہ تم کو بھی ظلمتوں کے سلگتے رقبے بلا رہے ہیں

ہمارے لہجے کی لرزشوں سے سمجھ سکو تو سمجھ بھی جاؤ
تمہارے غم سے لگے جو دل پہ وہ سارے تمغے بلا رہے ہیں

یقین جانو تمہارے جانے کے بعد کوئی رچا نہ مذہب
تمہاری تسبیح تمہارے سجدے تمہارے کلمے بلا رہے ہیں

ندیمؔ دانشوروں کی محفل کبھی نہ کچھ بھی عطا کرے گی
چلو کہ ''جانی پورہ'' جہاں پہ وہ یار کملے بلا رہے ہیں