EN हिंदी
تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں | شیح شیری
tumhein gila hi sahi hum tamasha karte hain

غزل

تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں

عاطف کمال رانا

;

تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں
مگر یہ لوگ بھی کیا کم تماشہ کرتے ہیں

دکھائی دیتے نہیں اولاً مرے درویش
کہیں ملیں تو بہ رقصم تماشہ کرتے ہیں

یہ خاص بھیڑ ہے مرحوم بادشاہوں کی
یہاں سکندر آعظم تماشہ کرتے ہیں

شریک کار عبادت نہیں رہے کہ یہ لوگ
درون مجلس ماتم تماشہ کرتے ہیں

بس ایک پاؤں تھرکتا ہے رات دن مجھ میں
چہار سو کئی عالم تماشہ کرتے ہیں

کھلا ہے آج بھی اس خانقاہ عشق کا در
ملنگ آج بھی پیہم تماشہ کرتے ہیں

طیور دیکھنے آتے ہیں میری ایک جھلک
ہزار برگد و شیشم تماشہ کرتے ہیں

یہ شہر مجمع خالی سے گر نہیں ہے خوش
تو آؤ مل کے عزیزم تماشہ کرتے ہیں

کچھ ایسے لوگ ہیں میرے بھی ملنے والے لوگ
جو بر جنازہ و چہلم تماشہ کرتے ہیں