تمہیں ایسا بے رحم جانا نہ تھا
غرض کیا کہیں دل لگانا نہ تھا
اگر اس گلی سے نکلتے تو پھر
دو عالم میں اپنا ٹھکانا نہ تھا
لیا امتحان وفا ہی میں جی
ہمیں یاں تلک آزمانا نہ تھا
وہ تھا کون سا تیرا تیر ستم
کہ میں آہ اس کا نشانا نہ تھا
کیا کس کی آنکھوں نے راسخؔ پہ سحر
وہ آگے تو ایسا دوانا نہ تھا
غزل
تمہیں ایسا بے رحم جانا نہ تھا
راسخ عظیم آبادی