تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں
مری دیوانگی کے ذکر دیوانوں میں رہتے ہیں
نہیں پروائے ایماں کافران عشق کو ہرگز
انہیں کعبہ سے کیا مطلب جو بت خانوں میں رہتے ہیں
تلاش اس رشک لیلیٰ کی جو رہتی ہے ہمیں ہر دم
اسی سے قیس کے مانند وہ ویرانوں میں رہتے ہیں
میان محفل احباب ہے وہ شمع کی صورت
ہم اس سے لو لگائے اس کے پروانوں میں رہتے ہیں
فلک سے بڑھ کے رتبہ ہو نہ کیوں کر قصر جاناں کا
ملائک جس جگہ ادنیٰ سے دربانوں میں رہتے ہیں
عجب ہے نیک صحبت کی نہ ہوتا سیر انساں میں
مہذب بنتے ہیں حیوان جو انسانوں میں رہتے ہیں
نہ ہو مضمون عالی کیوں بھلا اشعار احقرؔ میں
سخن دانوں سے صحبت ہے زبان دانوں میں رہتے ہیں

غزل
تمہاری زلف کے چرچے پریشانیوں میں رہتے ہیں
رادھے شیام رستوگی احقر