تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے
تمہیں تو لوٹ کر آنا نہیں ہے
مجھے تو انتظاری ہو رہی ہے
مرے اندر کوئی لڑ مر رہا ہے
بڑی تخریب کاری ہو رہی ہے
ترے کوچے میں تو سازش ہوئی تھی
وہاں کیوں آہ و زاری ہو رہی ہے
ترے اندر کہاں سبزہ اگے گا
خزاں میں کاشتکاری ہو رہی ہے
مجھی پہ ڈال دے سارا خسارہ
تجھے کیوں شرمساری ہو رہی ہے
یہ دنیا کی محبت اور یہ دنیا
تمہاری تھی تمہاری ہو رہی ہے
در افلاک سے کیا جھانکتا ہے
زمیں پہ مارا ماری ہو رہی ہے
زمیں پر ایک ملک ایسا ہے جس میں
غضب کی دین داری ہو رہی ہے
غزل
تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
عارف اشتیاق