تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
کسی طرح سے مگر تم کو یاد آئیں بھی
چھلک ہی پڑتے ہیں خود ہی گلاب آنکھوں کے
وہ پاس آئیں تو یہ داستاں سنائیں بھی
ہر ایک لمحہ یہی بیکلی سی ہے دل میں
کہ ان کو یاد کریں ان کو بھول جائیں بھی
جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں
وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی
تمام عمر یوں ہی رتجگوں سے کیا حاصل
انہیں بھلائیں ذرا نیند کو بلائیں بھی
سکون ملتا ہے جلتی ہوئی دوپہروں میں
بنی ہیں مرہم دل دھوپ کی شعاعیں بھی
روا روی میں ہے ہر ایک صحبت یاراں
ملیں سکوں سے تو قصے ترے سنائیں بھی
وہ جن کے ذکر سے ناہیدؔ زندگی ہے حسیں
وہ لوگ آئیں تو آنکھوں پہ ہم بٹھائیں بھی
غزل
تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
کشور ناہید