تمہاری خوشبو تھی ہم سفر تو ہمارا لہجہ ہی دوسرا تھا
یہ عکس بھی آشنا سا ہے کچھ مگر وہ چہرہ ہی دوسرا تھا
وہ ادھ کھلی کھڑکیوں کا موسم گزر گیا تو یہ راز جانا
ادھر شناسائی تک نہیں تھی ادھر تقاضا ہی دوسرا تھا
گلاب کھلتے تھے چاہتوں کے چراغ جلتے تھے آہٹوں کے
جہاں برستی ہیں وحشتیں اب کبھی وہ رستہ ہی دوسرا تھا
کبھی نہ کہتا تھا دل ہمارا کہ آنسوؤں کو لکھیں ستارہ
جدائیوں کی کسک سے پہلے یہ استعارہ ہی دوسرا تھا
اداس لفظوں کے راستے میں یہ روشنی کی لکیر کب تھی
محبتوں کے سفر سے پہلے غزل کا لہجہ ہی دوسرا تھا
غزل
تمہاری خوشبو تھی ہم سفر تو ہمارا لہجہ ہی دوسرا تھا
اقبال اشہر