EN हिंदी
تمہارے غم کو غم جاں بنا لیا میں نے | شیح شیری
tumhaare gham ko gham-e-jaan bana liya maine

غزل

تمہارے غم کو غم جاں بنا لیا میں نے

سحر محمود

;

تمہارے غم کو غم جاں بنا لیا میں نے
کہ جنگلوں کو گلوں سے سجا دیا میں نے

نہ جانے کتنی امیدیں لہو لہو کر کے
دل تباہ کو جینا سکھا دیا میں نے

سبب ہو کچھ بھی انہیں روٹھنے کی عادت ہے
یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ کیا کیا میں نے

ہر ایک بات مرے حق میں تھی مگر پھر بھی
جو فیصلہ تھا بہت سوچ کر کیا میں نے

اسے نہ بھول سکا ہوں نہ بھول پاؤں گا
یہ تجربہ تو کئی بار کر لیا میں نے

ترے بغیر مری پیاس بجھ نہیں پائی
ہمیشہ یاد کیا تجھ کو ساقیا میں نے

مری بھی خامشی دیکھی نہیں گئی ان سے
کسی کا ضبط سخن آزما لیا میں نے

علاج سوز دروں کا نہ ہو سکا پھر بھی
سحرؔ بنام دوا زہر بھی پیا میں نے