تمہارے درد کو سورج کہا ہے
نیا اسلوب غزلوں کو دیا ہے
سحر کے راستے میں سر اٹھائے
اندھیروں کا وہی پربت کھڑا ہے
بہت کچھ جو کتابوں میں نہیں تھا
وہ چہروں کی لکیروں میں پڑھا ہے
کوئی وحشت زدہ زخمی ارادہ
تبسم بن کے لہراتا رہا ہے
بتاؤ نام بھی ہے کچھ تمہارا
مرا سایہ مجھی سے پوچھتا ہے
مجھے اپنا سمجھ کر زندگی نے
خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے
در و دیوار سے ہر روز جامیؔ
وہی بے رنگ افسانہ سنا ہے
غزل
تمہارے درد کو سورج کہا ہے
خورشید احمد جامی

