تم سے یہ کب کہا ہے کہ اکثر ملا کرو
مجھ سے مرے جنوں کے برابر ملا کرو
میں تم سے جب ملوں تو مکمل ملا کروں
تم مجھ سے جب ملو تو سراسر ملا کرو
نامہ برائے نصف ملاقات بھول جاؤ
تکمیل کار خیر کو آ کر ملا کرو
ملتا نہیں وجود کے باہر کسی سے میں
مجھ سے مرے وجود کے اندر ملا کرو
داد جمال و حسن سمیٹوں بلا حساب
ملنے کے بعد مجھ سے مکرر ملا کرو
مجھ سے نہیں ہے خاص تعلق تمہیں تو پھر
اوروں کی طرح مجھ سے بھی ہنس کر ملا کرو
یہ ٹھیک ہے کہ صرف تغیر کو ہے ثبات
مل کر بچھڑنے والو بچھڑ کر ملا کرو
غزل
تم سے یہ کب کہا ہے کہ اکثر ملا کرو
شکیل جعفری