تم سے شکوہ بھی نہیں کوئی شکایت بھی نہیں
اور اس ترک تعلق کی وضاحت بھی نہیں
یاد میراث ہے یادیں ہی امانت ہیں مری
وہ تو محفوظ ہیں اب ان کی عنایت بھی نہیں
جب مری گردش دوراں سے ملاقات ہوئی
ہنس کے بولے تجھے حاجات کفایت بھی نہیں
تلخ یادوں کا دفینہ ہے یہ معصوم سا دل
تلخ یادوں سے ہمیں کوئی شکایت بھی نہیں
آصفہؔ صرف ہے کہنے کے لئے دل میرا
اب مگر دل پہ مرے میری حکومت بھی نہیں
غزل
تم سے شکوہ بھی نہیں کوئی شکایت بھی نہیں
آصفہ زمانی