تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے
دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے
آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے
کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے جب دیکھا تو میرے ہاتھ گیلے ہو گئے
اب کوئی امید ہے شاہدؔ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے

غزل
تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے
شاہد کبیر