EN हिंदी
تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے | شیح شیری
tum se milte hi bichhaDne ke wasile ho gae

غزل

تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے

شاہد کبیر

;

تم سے ملتے ہی بچھڑنے کے وسیلے ہو گئے
دل ملے تو جان کے دشمن قبیلے ہو گئے

آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے جب دیکھا تو میرے ہاتھ گیلے ہو گئے

اب کوئی امید ہے شاہدؔ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے