EN हिंदी
تم سے جانا کہ اک کتاب ہوں میں | شیح شیری
tum se jaana ki ek kitab hun main

غزل

تم سے جانا کہ اک کتاب ہوں میں

نینا سحر

;

تم سے جانا کہ اک کتاب ہوں میں
حرف در حرف لا جواب ہوں میں

حسرت موسم گلاب ہوں میں
سچ نہ ہو پائے گا وہ خواب ہوں میں

آپ نے اعتبار ہی نہ کیا
میں تو کہتی رہی سراب ہوں میں

مجھ سے اپنی نمی نہ سوکھ سکی
آپ کہتے ہیں آفتاب ہوں میں

ہو کے موجود بھی نہیں دکھتا
وہ اماوس کا ماہتاب ہوں میں

اس سے ملتے نہیں اصول سحرؔ
چاہتی جس کو بے حساب ہوں میں