تم سے جانا کہ اک کتاب ہوں میں
حرف در حرف لا جواب ہوں میں
حسرت موسم گلاب ہوں میں
سچ نہ ہو پائے گا وہ خواب ہوں میں
آپ نے اعتبار ہی نہ کیا
میں تو کہتی رہی سراب ہوں میں
مجھ سے اپنی نمی نہ سوکھ سکی
آپ کہتے ہیں آفتاب ہوں میں
ہو کے موجود بھی نہیں دکھتا
وہ اماوس کا ماہتاب ہوں میں
اس سے ملتے نہیں اصول سحرؔ
چاہتی جس کو بے حساب ہوں میں
غزل
تم سے جانا کہ اک کتاب ہوں میں
نینا سحر