تم سے اب کامیاب اور ہی ہے
آہ ہم پر عذاب اور ہی ہے
اس کو آئینہ کب پہنچتا ہے
حسن کی آب و تاب اور ہی ہے
رند واعظ سے کیوں کہ سربر ہو
اس کی چھو، کی کتاب اور ہی ہے
ہجر بھی کم نہیں ہے دوزخ سے
اس سفر کا عذاب اور ہی ہے
اس کو لگتی ہے کب کوئی تلوار
تیغ ابرو کی آب اور ہی ہے
یوں تو ہے سرخ یار کا چہرا
پر پئے جب شراب اور ہی ہے
مجھ کو اس نیند سے نہیں آرام
مجھ کو راحت کا خواب اور ہی ہے
بحث علمی سے کب ہیں یہ قائل
جاہلوں کا جواب اور ہی ہے
یاد میں تیری زلف و کاکل کی
دل کے تئیں پیچ و تاب اور ہی ہے
اس ستم گر کا مجھ پہ ہر ساعت
جور و ظلم و عذاب اور ہی ہے
کس طرح سے گہر کہوں تاباںؔ
اس کے دنداں میں آب اور ہی ہے
غزل
تم سے اب کامیاب اور ہی ہے
تاباں عبد الحی