تم سا گر راہ بر نہیں ہوتا
کوئی بھی راہ پر نہیں ہوتا
راستے بھی فریب دیتے ہیں
جب کوئی ہم سفر نہیں ہوتا
اس کی یادیں جو ہم سفر ہوتیں
تو سفر طول تر نہیں ہوتا
اپنے سائے سے جو نہ ہو محروم
ایسا کوئی شجر نہیں ہوتا
ہاں میں اس کی اگر ملاتا ہاں
دار پہ میرا سر نہیں ہوتا
میں نکلتا ہوں جب سفر کے لئے
گھر میں رخت سفر نہیں ہوتا
لاکھ کرتا ہوں کوششیں عبرتؔ
غم مگر مختصر نہیں ہوتا
غزل
تم سا گر راہ بر نہیں ہوتا
عبرت بہرائچی