EN हिंदी
تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا | شیح شیری
tumne ye kya sitam kiya zabt se kaam le liya

غزل

تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا

شکیل بدایونی

;

تم نے یہ کیا ستم کیا ضبط سے کام لے لیا
ترک وفا کے بعد بھی میرا سلام لے لیا

رند خراب نوش کی بے ادبی تو دیکھیے
نیت مے کشی نہ کی ہاتھ میں جام لے لیا

ہائے وہ پیکر ہوس ہائے وہ خوگر قفس
بیچ کے جس نے آشیاں حلقۂ دام لے لیا

بادہ کشان عشق کو کچھ تو ملا پئے سکوں
حسن سحر نہ لے سکے جلوۂ شام لے لیا

نامۂ شوق پڑھ کے وہ کھو گئے یک بیک شکیلؔ
منہ سے تو کچھ نہ کہہ سکے دل سے پیام لے لیا