تم نے جب گھر میں اندھیروں کو بلا رکھا ہے
اٹھ کے سو جاؤ کہ دروازے پہ کیا رکھا ہے
ہر کسی شخص کے رونے کی صدا آتی ہے
پھر کسی شخص نے بستی کو جگا رکھا ہے
اپنی خاطر بھی کوئی لفظ تراشیں یارو
ہم نے کس واسطے یوں خود کو بھلا رکھا ہے
دیکھنے کو ہے بدن اور حقیقت یہ ہے
ایک ملبہ ہے جو مدت سے اٹھا رکھا ہے
تو اگر تھا تو بہت دور تھے ہم تجھ سے کہ اب
تو نہیں ہے تو تجھے پاس بٹھا رکھا ہے
ہم کسی طرح تجھے ڈھونڈ لیں ممکن ہی نہیں
تو نے ہر راہ کو صحرا سے ملا رکھا ہے
غزل
تم نے جب گھر میں اندھیروں کو بلا رکھا ہے
عابد عالمی