تم نہیں سمجھے کبھی ان کی زباں
دامن گل مانگتی ہیں تتلیاں
آج بھی عورت کے حصے آگ ہے
کتنی بھی بے شک ہوں اس پہ ڈگریاں
پوچھ بیٹھے تھے تمہیں کل روک کر
ورنہ کیوں ہم کھولتے اپنی زباں
کر لے خدمت اب تو تو ماں باپ کی
اور بس کچھ روز ہیں یہ جسم و جاں
تم بھلے کتنا بھی اس کو کوس لو
مامتا میں ماں نہ کھولے ہے زباں
ہو سکے گا درد سر کا کم تبھی
گود میں رکھ کر جو ماں دے تھپکیاں
اس رتنؔ نے جی لئے کتنے بھرم
آپ اس کا ذکر ہی چھوڑو میاں

غزل
تم نہیں سمجھے کبھی ان کی زباں
کرتی رتن سنگھ