EN हिंदी
تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو | شیح شیری
tum mere sath bhi juda bhi ho

غزل

تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو

موسیٰ رضا

;

تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو
تم مرا درد بھی دوا بھی ہو

تم سفینہ بھی ناخدا بھی ہو
تم تلاطم بھی آسرا بھی ہو

ڈھونڈھتا ہوں کہاں کہاں تم کو
راہزن تم ہو رہنما بھی ہو

تم ہی ہو میری گرمئی آغوش
میرے پہلو کا تم خلا بھی ہو

دل کے رکنے کی ہو تم ہی آواز
دل کی دھڑکن کی تم صدا بھی ہو

پی کے سرشار بھی ہوں پیاسا بھی
تشنگی بھی ہو تم نشہ بھی ہو