تم کچھ بھی کرو ہوش میں آنے کے نہیں ہم
ہیں عشق گھرانے کے زمانے کے نہیں ہم
ہم اور محبت کے سوا کچھ نہیں کرتے
وہ روٹھ گیا ہے تو منانے کے نہیں ہم
دریا ہے محبت تو ملے جسم کا میدان
اک جسم پیالے میں سمانے کے نہیں ہم
ہم پر بھی کبھی اپنی ہلاکت کی نظر ڈال
سچ جان کہ جان اپنی بچانے کے نہیں ہم
کتنا ہی کرے شور یہاں آ کے زمانہ
تجھ پر سے مگر دھیان ہٹانے کے نہیں ہم
یہ جسم فقط ایک طرف کا ہے مسافر
جا کر پھر اسی جسم میں آنے کے نہیں ہم
پاس آؤ کہ ہم کھا تو نہیں جائیں گے تم کو
بس دانت دکھانے کے ہیں کھانے کے نہیں ہم
احساسؔ میاں پیر ہیں مرشد ہیں ہمارے
اب اٹھ کے یہاں سے کہیں جانے کے نہیں ہم
غزل
تم کچھ بھی کرو ہوش میں آنے کے نہیں ہم
فرحت احساس