تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے
جستجو میں اہل دل پھرتے ہیں دیوانے بنے
سب کو ساقی نے نہیں بخشا دل درد آشنا
جتنے اہل ظرف تھے اتنے ہی پیمانے بنے
جلوۂ حسن اور سوز عشق دونوں ایک ہیں
شمع کی لو تھرتھرانے ہی سے پروانے بنے
موج طوفاں خیز اٹھ کر چھین لے ساحل کی آس
ناخدا کے آتے آتے کیا خدا جانے بنے
دم بخود ہے تیرے آگے اعتبار عقل و ہوش
ہوش والے جب بڑھے حد سے تو دیوانے بنے
دیکھ لے زاہد مری روشن ضمیری کی نمود
ایک آئینے سے کتنے آئنہ خانے بنے
اے فگارؔ افسانۂ دیر و حرم کا ذکر کیا
اس حقیقت کے نہ جانے کتنے افسانے بنے
غزل
تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے
فگار اناوی