تم دریا سا اشک بہاؤ تو جانیں
کیا گزری ہے بات بتاؤ تو جانیں
دادا کی پہچان بتانا آساں ہے
اپنے دم پر نام کماؤ تو جانیں
بستی میں تم خوب سیاست کرتے ہو
بستی کی آواز اٹھاؤ تو جانیں
بچوں جیسا اشک بہا کر آئے ہو
تم عاشق ہو درد چھپاؤ تو جانیں
جسم سجا کر بیٹھ گئے ہو کیا سمجھوں
پلکوں پر کچھ خواب سجاؤ تو جانیں
تھوڑا پی کر تاج اٹھاتے پھرتے ہو
مے خانوں میں رات بتاؤ تو جانیں
کیوں کیا کیسے فیضؔ یہی تو کرتا ہے
تم شاعر ہو شعر سناؤ تو جانیں

غزل
تم دریا سا اشک بہاؤ تو جانیں
فیض جونپوری