تم اور فریب کھاؤ بیان رقیب سے
تم سے تو کم گلہ ہے زیادہ نصیب سے
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
برباد دل کا آخری سرمایہ تھی امید
وہ بھی تو تم نے چھین لیا مجھ غریب سے
دھندلا چلی نگاہ دم واپسیں ہے اب
آ پاس آ کے دیکھ لوں تجھ کو قریب سے
غزل
تم اور فریب کھاؤ بیان رقیب سے
آغا حشر کاشمیری