EN हिंदी
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے | شیح شیری
tum aae ho na shab-e-intizar guzri hai

غزل

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

فیض احمد فیض

;

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے