تجھے میں بھول جانا چاہتا ہوں
یوں دل کو آزمانا چاہتا ہوں
نہ چھیڑو آج درد و غم کے قصے
میں کھل کر مسکرانا چاہتا ہوں
مری تحویل میں جو بھی ہے یارو
تمہیں پہ سب لٹانا چاہتا ہوں
بہت بوجھل سے لگتے ہیں مناظر
میں ان سے دور جانا چاہتا ہوں
خیال و فکر کا دم گھٹ رہا ہے
نئی دنیا بنانا چاہتا ہوں
کسی کی یاد کی خوشبو کو انجمؔ
میں رگ رگ میں بسانا چاہتا ہوں
غزل
تجھے میں بھول جانا چاہتا ہوں
غیاث انجم