تجھے کب پکارا نہیں جا رہا
فراق اب سہارا نہیں جا رہا
عجب بے کلی ہے پس عشق بھی
یہ لمحہ گزارا نہیں جا رہا
تحیر زدہ اک جہاں ہے مگر
تجھی تک اشارہ نہیں جا رہا
سر شوق منزل ہے وہ پیش و پس
تھکن کو اتارا نہیں جا رہا
تغیر کا ادراک ہوتے ہوئے
نیا روپ دھارا نہیں جا رہا
نہیں دور تک، جیت کا شائبہ
مگر ہم سے ہارا نہیں جا رہا
غزل
تجھے کب پکارا نہیں جا رہا
خالد معین