تجھ زلف کی شکن ہے مانند دام گویا
یا صبح پر ہماری آئی ہے شام گویا
ہیں صاد اس کی آنکھیں اور قد الف کے مانند
ابرو ہے نون نادر گیسو ہے لام گویا
مسجد میں تجھ بھنؤں کی اے قبلۂ دل و جاں
پلکیں ہیں مقتدی اور پتلی امام گویا
رنگیں بہار جنت دوزخ ہے مجھ کو اس بن
دوزخ ہے اس کے ہوتے دارالسلام گویا
ٹک ماہ نو کی جانب اے ماہ رو نظر کر
خم ہو تری بھنؤں کوں کرتا سلام گویا
گل رو کے قد مقابل ہو با ادب کھڑا ہے
شمشاد ہے چمن میں اس کا غلام گویا
شعر سراجؔ از بس عالم میں ہیں زباں زد
دیوان کی زمیں ہے دیوان عام گویا
غزل
تجھ زلف کی شکن ہے مانند دام گویا
سراج اورنگ آبادی