تجھ تک گزر کسی کا اے گل بدن نہ دیکھا
باد صبا نے اب تک تیرا چمن نہ دیکھا
میلا ہو رنگ اس کا گر چاندنی میں نکلے
چشم فلک نے ایسا نازک بدن نہ دیکھا
عریاں نہ وہ نہایا حمام ہو کہ دریا
چشم حباب نے بھی اس کا بدن نہ دیکھا
ملتی ہے میرے دل کو قاتل کی خوش خرامی
دیکھا زمانہ لیکن ایسا چلن نہ دیکھا
سو سو کیے بہانے جب روز وعدہ آیا
اے حیلہ ساز تجھ سا پیماں شکن نہ دیکھا
قصے سنے ہزاروں تصویریں دیکھیں لاکھوں
سج دھج سنی نہ ایسی یہ بانکپن نہ دیکھا
غزل
تجھ تک گزر کسی کا اے گل بدن نہ دیکھا
شعور بلگرامی