EN हिंदी
تجھ تک گزر کسی کا اے گل بدن نہ دیکھا | شیح شیری
tujh tak guzar kisi ka ai gul-badan na dekha

غزل

تجھ تک گزر کسی کا اے گل بدن نہ دیکھا

شعور بلگرامی

;

تجھ تک گزر کسی کا اے گل بدن نہ دیکھا
باد صبا نے اب تک تیرا چمن نہ دیکھا

میلا ہو رنگ اس کا گر چاندنی میں نکلے
چشم فلک نے ایسا نازک بدن نہ دیکھا

عریاں نہ وہ نہایا حمام ہو کہ دریا
چشم حباب نے بھی اس کا بدن نہ دیکھا

ملتی ہے میرے دل کو قاتل کی خوش خرامی
دیکھا زمانہ لیکن ایسا چلن نہ دیکھا

سو سو کیے بہانے جب روز وعدہ آیا
اے حیلہ ساز تجھ سا پیماں شکن نہ دیکھا

قصے سنے ہزاروں تصویریں دیکھیں لاکھوں
سج دھج سنی نہ ایسی یہ بانکپن نہ دیکھا