تجھ سے یوں یک بار توڑوں کس طرح
میں قدم تیرے یہ چھوڑوں کس طرح
گھر سے بابر تو نہ نکلا تا ہنوز
تیرے در پر سر نہ پھوڑوں کس طرح
مے سے تائب تھا ولیکن آج پی
ہاتھ لگ جاوے تو چھوڑوں کس طرح
آبروئے ابر یاں منظور ہے
آہ میں دامن نچوڑوں کس طرح
صاف دل کیوں کر کروں تجھ سے بھلا
ٹوٹی الفت پھر کے جوڑوں کس طرح
شوق سے تو ہاتھ کو میرے مروڑ
میں ترا پنجا مروڑوں کس طرح
وقت بوسہ کے یہ انشاؔ سے کہا
تجھ سے میں پھر منہ نہ موڑوں کس طرح
غزل
تجھ سے یوں یک بار توڑوں کس طرح
انشاءؔ اللہ خاں