EN हिंदी
تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی | شیح شیری
tujhse sab kuchh kah ke bhi kuchh an-kahi rah jaegi

غزل

تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی

خالد سہیل

;

تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی
گفتگو اتنی بڑھے گی کچھ کمی رہ جائے گی

اپنے لفظوں کے سبھی تحفے تجھے دینے کے بعد
آخری سوغات میری خامشی رہ جائے گی

کشتیاں مضبوط سب بہہ جائیں گی سیلاب میں
کاغذی اک ناؤ میری ذات کی رہ جائے گی

حرص کے طوفان میں ڈھہ جائیں گے سارے محل
شہر میں درویش کی اک جھونپڑی رہ جائے گی

چھوڑ کر مجھ کو چلے جائیں گے سارے آشنا
صبح دم بس ایک لڑکی اجنبی رہ جائے گی

رات بھر جلتا رہا ہوں میں سہیلؔ اس آس میں
میں تو بجھ جاؤں گا لیکن روشنی رہ جائے گی