تجھ سے ملنے کی التجا کیسی
ہونٹ پر آ گئی دعا کیسی
جھڑ گئے بال ڈھیلی پڑ گئی کھال
دل میں اب خوشبوئے حنا کیسی
سیج کیا ہے بغیر سیاں کے
پانیوں کے بناں گھٹا کیسی
دل میں در آنا دل کو کلپانا
دان کیسا ہے یہ دیا کیسی
کوئی ہنگامہ کوئی سر نامہ
ورنہ اس زیست میں بقا کیسی
رشوتیں رہزنی ڈکیتی قتل
لگ گئی شہر کو ہوا کیسی
حرف حق ظرف کائنات بنا
کربلا ہو گئی کتھا کیسی
شبد شوبھا سکھی تری لوبھا
تو سکھی مجھ سے ماورا کیسی
انتہا شوق کی طرح ملنا
تجھ سے ملنے کی انتہا کیسی
جل میں ٹھہرا ترا مرا چہرا
کیسا دریا تھا وہ سبھا کیسی
غزل
تجھ سے ملنے کی التجا کیسی
ناصر شہزاد