تجھ سے مل جانے کے امکاں ہوئے کیسے کیسے
خواب ہی میں سہی ساماں ہوئے کیسے کیسے
لوگ یہ سوچ کے ہو جائیں نہ حالات خراب
عالم عیش میں حیراں ہوئے کیسے کیسے
لفظ بوڑھے ہوں تو پیغام کوئی کیا بھیجے
ہم صبا سے بھی پشیماں ہوئے کیسے کیسے
کوئی جلوہ ہے نہ چہرہ نہ تجلی نہ کرن
آئنے بے سر و ساماں ہوئے کیسے کیسے
دل کے ارمانوں کا کیا حال کہیں تم سے میاں
باغ اس ملک کے ویراں ہوئے کیسے کیسے
کیسی کافور پسندی ہے جہاں میں اے نورؔ
لوگ جب مر گئے ذی شاں ہوئے کیسے کیسے
غزل
تجھ سے مل جانے کے امکاں ہوئے کیسے کیسے
نور تقی نور