EN हिंदी
تجھ سے بڑھ کر کوئی پیارا بھی نہیں ہو سکتا | شیح شیری
tujhse baDh kar koi pyara bhi nahin ho sakta

غزل

تجھ سے بڑھ کر کوئی پیارا بھی نہیں ہو سکتا

سلیم کوثر

;

تجھ سے بڑھ کر کوئی پیارا بھی نہیں ہو سکتا
پر ترا ساتھ گوارا بھی نہیں ہو سکتا

راستہ بھی غلط ہو سکتا ہے منزل بھی غلط
ہر ستارا تو ستارا بھی نہیں ہو سکتا

پاؤں رکھتے ہی پھسل سکتا ہے مٹی ہو کہ ریت
ہر کنارا تو کنارا بھی نہیں ہو سکتا

اس تک آواز پہنچنی بھی بڑی مشکل ہے
اور نہ دیکھے تو اشارہ بھی نہیں ہو سکتا

تیرے بندوں کی معیشت کا عجب حال ہوا
عیش کیسا کہ گزارا بھی نہیں ہو سکتا

اپنا دشمن ہی دکھائی نہیں دیتا ہو جسے
ایسا لشکر تو صف آرا بھی نہیں ہو سکتا

پہلے ہی لذت انکار سے واقف نہیں جو
اس سے انکار دوبارہ بھی نہیں ہو سکتا

حسن ایسا کہ چکا چوند ہوئی ہیں آنکھیں
حیرت ایسی کہ نظارا بھی نہیں ہو سکتا

چلئے وہ شخص ہمارا تو کبھی تھا ہی نہیں
دکھ تو یہ ہے کہ تمہارا بھی نہیں ہو سکتا

دنیا اچھی بھی نہیں لگتی ہم ایسوں کو سلیمؔ
اور دنیا سے کنارا بھی نہیں ہو سکتا