تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی
خود کو اتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی
جانتے ہیں کہ یقیں ٹوٹ رہا ہے دل پر
پھر بھی اب ترک یہ وحشت نہیں کی جا سکتی
حبس کا شہر ہے اور اس میں کسی بھی صورت
سانس لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی
روشنی کے لیے دروازہ کھلا رکھنا ہے
شب سے اب کوئی اجازت نہیں لی جا سکتی
عشق نے ہجر کا آزار تو دے رکھا ہے
اس سے بڑھ کر تو رعایت نہیں دی جا سکتی
غزل
تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی
نوشی گیلانی