تجھ پہ ہم اک کتاب لکھ بیٹھے
اس کو کار ثواب لکھ بیٹھے
دوستوں کے سلوک کو بھی ہم
آج کوئی عذاب لکھ بیٹھے
اس کو لکھنا تھا کم نظر لیکن
ہائے عالی جناب لکھ بیٹھے
ہم کو لکھنی تھی اک غزل لیکن
اپنے غم کا حساب لکھ بیٹھے
تیری قامت کی بات جب آئی
حسن کا اک نصاب لکھ بیٹھے
گرچہ خط کا ہے انتظار ابھی
پھر بھی ہم ہیں جواب لکھ بیٹھے
خط میں القاب اس کو اے خوشترؔ
تازہ رنگیں گلاب لکھ بیٹھے
غزل
تجھ پہ ہم اک کتاب لکھ بیٹھے
منصور خوشتر