تجھ میں کب حسن بہار گل کی رعنائی نہ تھی
کب ترے جلووں کی اک دنیا تماشائی نہ تھی
زندگی بھر آرزو کا خون ہی ہوتا رہا
لب پہ لیکن ایک دن بھی آہ تک آئی نہ تھی
عشق ہے اک آتش دل سوز میں جلنے کا نام
ہم کو تو روز ازل یہ بات سمجھائی نہ تھی
ہم رہے ہیں منزلوں ہی منزلوں میں عمر بھر
جیسے قسمت میں کسی پہلو شکیبائی نہ تھی
اک چمن کیا دو جہاں کی آفتوں سے دور تھا
غنچۂ نورس کے لب تک جب ہنسی آئی نہ تھی
کیا کہوں جوہرؔ جو میرے جان و دل پر بن گئی
موت کا پیغام تھا اک شام تنہائی نہ تھی
غزل
تجھ میں کب حسن بہار گل کی رعنائی نہ تھی
جوہر زاہری