تجھ کو سوچوں میں سو بہ سو ہو کر
میں تو بس رہ گئی ہوں تو ہو کر
یہ ترے لمس کا کرشمہ ہے
پھیل جاتی ہوں رنگ و بو ہو کر
تو نہ ہو تو میں بانجھ مٹی ہوں
راکھ ہو جاؤں بے نمو ہو کر
ہے تری قید میں ہی آزادی
ڈھانپ لے مجھ کو چار سو ہو کر
آئنہ ہوں ترے وجود کا میں
آ کبھی دیکھ رو بہ رو ہو کر
نازؔ کے لب پہ ہر گھڑی رقصاں
تو ہی رہتا ہے گفتگو ہو کر
غزل
تجھ کو سوچوں میں سو بہ سو ہو کر
ناز بٹ