EN हिंदी
تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں | شیح شیری
tujhko is tarah kahan chhoD ke jaana tha hamein

غزل

تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں

طارق نعیم

;

تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں
وہ تو اک عہد تھا اور عہد نبھانا تھا ہمیں

تم تو اس پار کھڑے تھے تمہیں معلوم کہاں
کیسے دریا کے بھنور کاٹ کے آنا تھا ہمیں

ان کو لے آیا تھا منزل پہ زمانہ لیکن
ہم چلے ہی تھے کہ در پیش زمانہ تھا ہمیں

وہ جو اک بار اٹھا لائے تھے ہم عجلت میں
پھر وہی بار ہر اک بار اٹھانا تھا ہمیں

وہ تو ایسا ہے کہ مہلت نہ ملی تھی ورنہ
اپنی بربادی پہ خود جشن منانا تھا ہمیں