تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں
وہ تو اک عہد تھا اور عہد نبھانا تھا ہمیں
تم تو اس پار کھڑے تھے تمہیں معلوم کہاں
کیسے دریا کے بھنور کاٹ کے آنا تھا ہمیں
ان کو لے آیا تھا منزل پہ زمانہ لیکن
ہم چلے ہی تھے کہ در پیش زمانہ تھا ہمیں
وہ جو اک بار اٹھا لائے تھے ہم عجلت میں
پھر وہی بار ہر اک بار اٹھانا تھا ہمیں
وہ تو ایسا ہے کہ مہلت نہ ملی تھی ورنہ
اپنی بربادی پہ خود جشن منانا تھا ہمیں
غزل
تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں
طارق نعیم