تجھ کو اب کوئی شکایت تو نہیں
یہ مگر ترک محبت تو نہیں
میری آنکھوں میں اترنے والے
ڈوب جانا تری عادت تو نہیں
تجھ سے بیگانے کا غم ہے ورنہ
مجھ کو خود اپنی ضرورت تو نہیں
کھل کے رو لوں تو ذرا جی سنبھلے
مسکرانا ہی مسرت تو نہیں
تجھ سے فرہاد کا تیشہ نہ اٹھا
اس جنوں پر مجھے حیرت تو نہیں
پھر سے کہہ دے کہ تری منزل شوق
میرا دل ہے مری صورت تو نہیں
تیری پہچان کے لاکھوں انداز
سر جھکانا ہی عبادت تو نہیں
غزل
تجھ کو اب کوئی شکایت تو نہیں
پروین فنا سید