تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
جوں توں کے دن تو گزرے ہے پر رات بے طرح
ہوتی ہے ایک طرح سے ہر کام کی جزا
اعمال عشق کی ہے مکافات بے طرح
بلبل کر اس چمن میں سمجھ کر ٹک آشیاں
صیاد لگ رہا ہے تری گھات بے طرح
پوچھا پیام بر سے جو میں یار کا جواب
کہنے لگا خموش کہ ہے بات بے طرح
ملنے نہ دے گا ہم سے تجھے ایک دم رقیب
پیچھے لگا پھرے ہے وہ بد ذات بے طرح
کوئی ہی مور ہے تو رہے اس میں شیخ جی
داڑھی پڑی ہے شانے کے اب ہاتھ بے طرح
سوداؔ نہ مل کر اپنی تو اب زندگی پہ رحم
ہے اس جواں کی طرز ملاقات بے طرح
غزل
تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
محمد رفیع سودا