توشۂ دھوپ سے جسموں کو تراشے سورج
کبھی پتھر پہ بھی کچھ نقش ابھارے سورج
مدتیں گزریں اندھیروں میں بسر کرتا ہوں
میری بستی میں کبھی کوئی اگائے سورج
میں کہ گرویدۂ شب ہوں یہ بجا ہم نفسو
پر کبھی آ کے صدائیں دے پکارے سورج
شب کے دامن میں بھی ہیں چاند ستارے لیکن
دھوپ پہلو میں لیے آنکھ دکھائے سورج
تیری یادوں کا کرم میری نگاہوں کی تپشؔ
تھک گیا ہوں مری پلکوں سے اٹھائے سورج

غزل
توشۂ دھوپ سے جسموں کو تراشے سورج
مونی گوپال تپش