EN हिंदी
توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا | شیح شیری
toDne gul ko jo wo shoKH-e-trahdar jhuka

غزل

توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا

تنویر دہلوی

;

توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا
ان کے قدموں پہ سر بلبل گلزار جھکا

دیکھ لی تیرے نشے میں جو گلابی آنکھیں
آنکھ کو شرم سے لے نرگس بیمار جھکا

اس کی پاپوش کی چمکی جو دم صبح کرن
چومنے اس کے قدم مطلع انوار جھکا

دور ساقی میں مرے جھکنے لگا ایک پہ ایک
جام ساغر پہ ہے ساغر پہ ہے وہ یار جھکا

تم نے تنویرؔ لکھا ایسا جواب سوداؔ
جنس مضموں پہ ہر اک بن کے خریدار جھکا