EN हिंदी
توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر | شیح شیری
toD kar shisha-e-dil ko mere barbaad na kar

غزل

توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر

گہر خیرآبادی

;

توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر
اس طرح مجھ پہ ستم اے ستم ایجاد نہ کر

یہ نگہ لطف کی ہے اس سے نہ کر قتل مجھے
چشم جاں بخش کو یوں خنجر جلاد نہ کر

روئے روشن کی کبھی دید مجھے بھی دیدے
رہ کے پوشیدہ مجھے مضطر و ناشاد نہ کر

تیرے ہی دل کا اگر گوشہ قفس ہے صیاد
پھر تو ہرگز مجھے اس قید سے آزاد نہ کر

جب یہاں سنتا نہیں تیری فغاں کوئی گہرؔ
مصلحت جان خموشی ہی میں فریاد نہ کر