توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر
اس طرح مجھ پہ ستم اے ستم ایجاد نہ کر
یہ نگہ لطف کی ہے اس سے نہ کر قتل مجھے
چشم جاں بخش کو یوں خنجر جلاد نہ کر
روئے روشن کی کبھی دید مجھے بھی دیدے
رہ کے پوشیدہ مجھے مضطر و ناشاد نہ کر
تیرے ہی دل کا اگر گوشہ قفس ہے صیاد
پھر تو ہرگز مجھے اس قید سے آزاد نہ کر
جب یہاں سنتا نہیں تیری فغاں کوئی گہرؔ
مصلحت جان خموشی ہی میں فریاد نہ کر

غزل
توڑ کر شیشۂ دل کو مرے برباد نہ کر
گہر خیرآبادی